پردہ ، حجاب اور شرم و حیا قرآن کی و حدیث کی روشنی میں

اسلام دینِ فطرت ہے، جس نے عورت کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ کیا اور اسے ذلّت و بے حیائی کے دلدل سے نکال کر عزّت و احترام کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا۔نیز، اسے خُوب صورت، نازک آبگینہ قرار دیا۔ عورت اَنمول موتی کی طرح ہے، جس میں شرم و حیا مَردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ ہی شرم و حیا، دینِ اسلام کی پہلی ترجیح ہے، جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا ’’جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہے کرو۔ ( سنن ابی داؤد)۔‘‘ اسلام نے مَرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ان کے دائرۂ کار متعیّن کیے ہیں۔ عورت کو ” گھر کی ملکہ” قرار دیتے ہوئے اُسے آنے والی نسلوں کی تربیت جیسی اہم ذمّے داری سونپی، تو معاش اور دیگر بیرونی معاملات کا ذمّہ دار مرد کو قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عورت کو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہوئے پردے و حجاب میں رہنے کا حکم دیا تاکہ ازلی دشمن شیطان اور اس کے چیلوں کی ہَوس ناک نگاہیں اُس کی پاکیزگی کو میلا نہ کر سکیں۔

پردہ و حجاب کیا ہے؟

قارئینِ کرام!حِجاب کے متعلق علّامہ شریف جُرجانی رحمۃ اللہ علیہ  کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپا دے۔(کتاب التعریفات، حرف الحاء، ص 145) یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہو تو اس آڑ یا پردے کو  حجاب کہتے ہیں۔حجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23 سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں ارشادہوتا ہے:

حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِٙ(۳۲)

ترجمۂ کنزُ الایمان:یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔

نیز عورتوں کے حجاب سے کیا مراد ہے اس کے متعلق حضرت سیدنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے (کہ وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔ (فتح الباری، ٨/٥٨١، تحت الحدیث:٤٧٥٠)

پردے کا حکم کب نازِل ہوا؟

اس بارے میں علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت سید الانبیاء میں فرماتے ہیں: 4ہجری ذو القعدۃ الحرام کے مہینےمیں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہا کی کاشانَۂ نبوّت میں رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔

بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ حکم 2ہجری کو نازِل ہوا، مگر پہلا قول ہی راجِح ہے۔(سیرت سید الانبیا، حصہ دوم، ص ۳۵۱)

پردہ صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف عورتوں کو ہی پردے و حجاب کا حکم کیوں دیا گیا؟اس بارے میں دعوتِ اسلامی کی بڑی پیاری کتاب اسلامی زندگی صفحہ نمبر 105پر عورتوں کے پردہ کرنے کے پانچ (05) اسباب کچھ یوں تحریر ہیں:

)1(…عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے، ہر ایک کودِکھانے سے خطرہ ہے کہ کوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دِکھانا ضروری ہے۔

(2)…عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چَمَن میں پھول اور پھول چَمَن میں ہی ہَرا بھرا رہتا ہے، اگر توڑ کر باہر لایا گیا تو مُرجھا جائے گا۔اسی طرح عورت کا چَمَن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں،اس کو بلاوجہ باہر نہ لاؤ ورنہ مُرجھا جائے گی۔عورت کا دِل نہایت نازُک ہے، بہت جلد ہر طرح کا اثر قبول کرلیتا ہے، اس لیے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔

(3)…ہمارے یہاں بھی عورت کو صنف نازُک کہتے ہیں اور نازُک چیز وں کو پتھروں سے دُور رکھتے ہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں۔غیروں کی نگاہیں اس کے لیے مضبوط پتھر ہیں، اس لیے اس کو غیروں سے بچاؤ۔

(4)…عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزّت اور آبرو ہے اور اس کی مِثال سفید کپڑے کی سی ہے،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لیے ایک بدنُما داغ ہیں،اس لیے اس کو ان دھبوں سے دُور رکھو۔

(5)…عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نِگاہ اپنے شوہر کے سِوا کسی پر نہ ہو، اس لیے قرآنِ کریم نے حوروں کی تعریف میں فرمایا: قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ-۔ ترجمہ: شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ (پ٢٧،الرحمٰن:٥٦) اگر اس کی نگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہر کھوچکی ،پھر اس کا دِل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائے گا۔

کیا عورتوں کا گھروں میں رہنا ظلم ہے؟

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چَمَن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے چَمَن میں بُلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں،بلکہ عزّت و عِصْمَت کی حفاظت ہے اس کو قدرت نےاسی لیے بنایا ہے۔بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر، چیتا اور مُحافِظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شِکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔(اسلامی زندگی، ص ۱۰۶، ملتقطاً)

پردہ و حجاب اسلامی شعار ہے

پردہ و حجاب گویا اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ اسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عظمت و کردار کی بلندی عطا فرمائی ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ ٢،الاحزاب:٣٣)

ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔

علامہ نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مَثَلا ًسینے کے اُبھار وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰) افسوس! موجودہ دور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ 

صحابیات کس قدر پردہ کرتی تھیں؟

٭ایک بار ام المؤمنین حضرت سیدتنا سَودہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ  باقی ازواج کی طرح  حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ  کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں موت آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رضی اللہ عنہا  گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔( در منثور،پ ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩)

٭اسی طرح حضرت سیدتنا فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہانے موت کے وقت یہ وصیت فرمائی کہ بعدِ انتقال مجھے رات کے وقت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔( مدارج النبوت، الجزء الثانی، ص۴۶۱)

٭ اُمّ المومنین حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ- (پ٢٢، الاحزاب:٥٩)

ترجمۂ کنزُالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔

تو انصار کی خواتین  سیاہ چادر اوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو  دور سے دیکھ کر یوں لگتا  کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔(ابو داود، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١، مفہوماً)

٭ابو داود شریف میں ہے کہ حضرت سیدتنا اُمِّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا۔ آپ  ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو ئیں تو  اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقت بھی باپردہ ہیں ! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے، حَیا نہیں کھوئی۔( ابو داود ، ص٣۹٧، حدیث:٢٤٨٨ ملتقطاً)

٭حضرت سیِّدُنا عطا بن ابو رَباح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں جنَّتی عورت  نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اس نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں آ کر عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مرگی کے مرض کی وجہ سے میرا سِتْر (پردہ )کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو  میں اللہ پاک سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اس نے عرض کی: میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بوقت مِرگی میرا پردہ  نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کے لیے دعا فرمادی۔ (بخاری، حدیث:٥٦٥٢)

پردہ کرنے والی خواتین کے لیے آزمائشیں

آج کل پردہ کرنے والیوں کا  مذاق اُڑایا جاتا ہے،کبھی خاتون عورتوں کی کسی تقریب میں مدنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو!!! ٭… کوئی کہتی ہے: ارے ! یہ کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! ٭…کوئی بولتی ہے: بس ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ! ٭…کوئی کہتی ہے، دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے یہ کیا دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے! وغیرہ ۔

اِس طرح کی دل دُکھانے والی باتوں سے شرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چکناچُور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ واقعی یہ حالات نہایت ہی نازُک ہیں  اور شَرعی پردہ کرنے والی اسلامی بہن سخت آزمائش میں مبتلا رَہتی ہے مگر اسے ہمّت نہیں ہارنی چاہیے۔ مذاق اُڑانے یا اعتراض کرنے والیوں سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں آ کر لڑ پڑنا سخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ سکتا ہے۔

ایسے موقع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عام اِعلانِ نبوّت نہیں فرمایا تھا اُس وقت تک کفارِ بد انجام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اِحتِرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جُونہی علی الاعلان اسلام کا ڈنکا بجانا شروع کیا وہی کفارِ بداَطوار طرح طرح سے ستانے، مذاق اُڑانے اور گالیاں سنانے لگے، صرف یہی نہیں بلکہ جان کے در پے ہو گئے، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے غم خوار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کہ آپ نے بالکل ہمت نہ ہاری، ہمیشہ صبر ہی سے کام لیا ۔اب اسلامی بہن صبرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں جب تک فیشن ایبل اور بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں اُڑاتا تھا، جُونہی میں نے شَرعی پردہ اپنایا، ستائی جانے لگی۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ مجھ سے ظلم پر صبر کرنے کی سنّت اَدا ہو رہی ہے ۔

مدنی اِلتجا ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صبر کا دامن ہاتھ سے مَت چھوڑئیے، نیز بلا اجازتِ شَرعی ہرگز زبان سے کچھ مت بولئے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:اے ابنِ آدم ! اگرتُو اوّل صَدمے کے وقت صبر کرے اور ثواب کا طالِب ہو تو میں تیرے لیے جنَّت کے سِوا کسی ثواب پر راضی نہیں۔( ابن ماجہ، ص٢٥٦، حدیث: ١٥٩٧)

نوٹ: پردے کے بارے میں مزید معلومات اور شرعی احکامات تفصیل سے پڑھنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال “ اور رسالہ” صحابیات اور پردہ“ حاصل فرمائیں۔

از: مولانا عمر فیاض عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button